کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 27
[’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو بات چیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا۔ اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے [استقبال کے] لیے اٹھ کر آگے بڑھتے، انہیں بوسہ دیتے، انہیں خوش آمدید کہتے، ان کے ہاتھ کو تھامتے اور اپنی جگہ میں بٹھاتے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے، تو وہ (بھی استقبال کی خاطر) اٹھ کر آگے بڑھتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتیں اور آپ کے ہاتھ کو تھام لیتیں…] ج: سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے: ’’وَکَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَیْہَا، قَامَتْ إِلَیْہِ، فَأَخَذَتْ بِیَدِہِ، فَقَبَّلَتْہُ، وَأَجْلَسَتْہُ فِيْ مَجْلِسِہَا۔‘‘([1]) ’’اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے، تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (کے استقبال) کے لیے اٹھ کرآگے بڑھتیں، آپ کے ہاتھ کو پکڑتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور آپ کو اپنی جگہ میں بٹھاتیں۔‘‘ اور المستدرک میں ہے: ’’وَکَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا دَخَلَ عَلَیْہَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِھَا، فَقَبَّلَتْہُ، وَأَجْلَسَتْہُ فِيْ مَجْلِسِہَا۔‘‘([2])
[1] سنن أبي داود، أبواب السلام، باب في القیام، جزء من رقم الحدیث ۵۲۰۶، ۱۴/۸۷۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۳؍۹۷۹)۔ [2] المستدرک علی الصحیحین، کتاب الأدب، ۴/۲۷۳۔ امام حاکم نے اسے [بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/ ۲۷۳؛ والتلخیص ۴/ ۲۷۳)۔