کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 24
لے جایا کرتے تھے] سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کثرت سے وہاں جانا ثابت ہوتا ہے۔
ج: نواسے کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا:
امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کے ایک حصّے میں روانہ ہوا۔ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے گفتگو فرمائی اور نہ ہی میں نے کچھ عرض کیا، یہاں تک کہ آپ بنوقینقاع کے بازار میں تشریف لائے، پھر وہاں سے واپس چلے آئے، یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر (کے دروازے پر) پہنچے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) فرمایا: ’’أَثَمَّ لُکَعُ؟ أَثَمَّ لُکَعُ؟‘‘
’’کیا وہاں چھوٹو ہے؟ کیا وہاں چھوٹو ([1])ہے؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حسن رضی اللہ عنہ تھے۔
ہم نے گمان کیا، کہ ان کی والدہ نے انہیں نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لیے روک رکھا ہے۔
فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ جَائَ یَسْعٰی، حَتّٰی اعْتَنَقَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ۔
[تھوڑی ہی دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے آئے، یہاں تک کہ ان دونوں [یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حسن رضی اللہ عنہ ] نے آپس میں معانقہ کیا]۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّي أُحِبُّہُ، فَأَحِبَّہُ وَأَحْبِبْ مَنْ یُحِبُّہُ۔‘‘([2])
[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نواسے سے شدید تعلق اور قلبی لگاؤ کی بنا پر ایسے فرمایا۔
[2] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل الحسن و الحسین رضی اللّٰه عنمہا ، رقم الحدیث ۵۷۔ (۲۴۲۱)، ۴/۱۸۸۲۔۱۸۸۳۔