کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 156
[مَرْحَبًا بِاِبْنَتِيْ] کے الفاظِ مبارکہ سے انہیں خوش آمدید کہتے، انہیں بوسہ دیتے، ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔
۳: صاحبزادیوں کی اولاد سے غیر معمولی پیار:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حسن رضی اللہ عنہ کو کندھے پر اٹھایا، اللہ کے رُوبرو ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ ہی سے انہیں اور ان سے محبت کرنے والوں کو اپنا محبوب بنانے کی دعا کی، نواسی کو کندھے پر اٹھائے لوگوں کو نماز پڑھائی، مہمان کے رُوبرو نواسے کو بوسہ دیا اور اس بارے میں مہمان کی گفتگو کو ناپسند فرمایا، دونوں نواسوں کو گرتے ہوئے دیکھ کر خطبہ جاری نہ رکھ سکے، انہیں اٹھا کر اپنے آگے بٹھایا، پھر خطبہ دیا، دونوں نواسوں کو دنیوی خوشبو میں سے اپنا حصہ قرار دیا۔
۴: اولاد کے لیے دعائیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہاگ کی رات بیٹی، ان کے شوہر، ان کی اولاد اور نسل اورمعاملات میں برکت کے لیے دُعائیں کی ، اسی رات بیٹی کی خدمت اور نگہبانی کے لیے آنے والی خاتون کو دُعائیں دیں۔ ایک اور موقع پربیٹی، داماد اور نواسوں سے گندگی کی دوری اور خوب پاکیزگی کی دعا کی، نواسے حسن رضی اللہ عنہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے اور رحمتِ الٰہیہ پانے کی فریاد کی، دونوں نواسوں کے اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے اور ان کے لیے پناہِ الٰہی حاصل ہونے کی دعا کی۔
۵: اولاد کی تعلیم کا اہتمام:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو صبح و شام پڑھنے والی اور خادم سے بہتر دعا کی تعلیم دی، بیٹی اور داماد دونوں کو نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات