کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 153
رونا شروع کردیا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پریشانی دیکھی، تو مجھ سے دوبارہ سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا:
’’یَا فَاطِمَۃُ! أَلَا تَرْضَیْنِ أَنْ تَکُوْنِيْ سَیِّدَۃَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ؟‘‘ أَوْ ’’سَیِّدَۃُ نِسَآئِ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ؟‘‘([1])
’’اے فاطمہ۔ رضی اللہ عنہا ۔کیا تو اس بات پر راضی نہیں، کہ تم (جنت میں ) ایمان والی عورتوں کی سردار ہو؟‘‘ یا ([2]) (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ’’تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟‘‘
اس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو اپنی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے ہی اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے کی نصیحت فرمائی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادی کو قبل از وقت خبر دینے میں۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ یہ حکمت بھی تھی، کہ وہ ذہنی طور پر اس عظیم صدمہ کو برداشت کرنے کے لیے کسی حد تک تیار ہوجائیں۔
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الاستئذان، باب من ناجٰی بین یدي الناس، ، رقم الحدیث ۶۲۸۵، ۶۲۸۶، ۱۱/۷۹۔۸۰؛ وصحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل فاطمۃ رضی اللّٰه عنہا بنت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ، رقم الحدیث ۹۸۔ (۲۴۴۹)، ۴/۱۹۰۴۔۱۹۰۵۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[2] راوی کو شک ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا۔