کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 149
بِثَوْبِہِ رَحْمَۃً عَلَیْہَا۔‘‘([1]) [اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر تشریف فرما ہوئے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پہلو میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازراہِ شفقت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھوں سے اپنے کپڑے سے آنسو پونچھ رہے تھے۔] بیٹیوں کے باپ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادیوں کے ساتھ کس قدر شفیق و مہربان تھے! غم و اندوہ کی شدّت ملاحظہ فرمائیے: ایک صاحبزادی قبر میں اتاری جارہی ہے اور دوسری پہلو میں بیٹھی رو رہی ہے۔ قبر میں اتاری جانے والی بیٹی کی تدفین اپنی نگرانی میں کروا رہے ہیں اور رونے والی بیٹی کے آنسوؤں کو خود اپنے کپڑے سے پونچھ رہے ہیں۔ فِدَاہُ أَبِيْ وَأُمِّيْ،وَصَلَوَاتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ۔ (۱۷) بیٹیوں کو صبر کی تلقین سیرتِ طیبہ سے یہ بات بھی ثابت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادیوں کو صبر کی تلقین فرماتے۔ نہ صرف یہ ، بلکہ مصیبت کے آنے سے پہلے ذہنی طور پر انہیں مصیبت پر صبر کرنے کے لیے تیار فرماتے۔ ذیل میں اس بارے میں توفیقِ الٰہی سے دو واقعات پیش کیے جارہے ہیں:
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۳۱۰۳، ۵/۴۱۔ شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۵/۴۱)۔ تنبیہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر موجودگی کے متعلق شیخ احمد شاکر نے لکھا ہے: ’’فَالظَّاھِرُ أَنَّ ھٰذَا کَانَ قَبْلَ النَّھْيِ عَنْ زِیَارَۃِ النِّسَآئِ الْمَقَابِرِ، لِأَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنٍ رضی اللّٰه عنہ مَاتَ عَقِبَ غَزْوَۃِ بَدْرٍ سَنَۃَ ۲مِنَ الْہِجْرَۃِ۔‘‘ (المرجع السابق ۵/۴۱۔۴۲)۔ [’’ظاہر یہ ہے کہ، بے شک یہ عورتوں کو قبرستان کی زیارت سے روکنے سے پہلے کا واقعہ ہے، کیونکہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ۲ھ میں ہونے والے غزوۂ بدر کے متصل بعد ہوئی۔‘‘]