کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 142
[’’یارسول اللہ! یہ کیا ہے؟‘‘]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ھٰذِہِ رَحْمَۃٌ وَضَعَھَا اللّٰہُ فِيْ قُلُوْبِ مَنْ شَائَ مِنْ عِبَادِہِ، وَلَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ إِلَّا الرُّحَمَائَ۔‘‘([1])
[’’یہ رحمت ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں چاہتے ہیں، ڈال دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرماتے ہیں۔‘‘]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجنے والی آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، اور جان کنی کے عالَم میں ان کی بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اللہ کریم نے اپنے فضل و کرم سے انہیں شفا عطا فرمائی اور اس کے بعد وہ ایک مدت تک زندہ رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو اٹھا کر نماز ظہر یا نماز عصر پڑھائی تھی۔([2])، ([3])
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی کو نزع کے عالَم میں دیکھ کر بھی صبر کو نہ چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے گہرا تعلق اور شدید پیار انہیں اٹھا کر نماز پڑھانے سے عیاں ہے، لیکن اس کے باوجود آنکھوں سے آنسو بہنے کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدتِ غم میں بھی صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ فرمایا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا ۔فَصَلوَاتُ رَبِّي وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ۔
حدیث شریف میں دیگر فوائد:
حدیث شریف میں متعدد دیگر فوائد میں سے دو درج ذیل ہیں:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی صاحبزادی کے ساتھ غیر معمولی تعلق، کہ جب انہوں نے
[1] صحیح البخاري، کتاب المرضی، باب عیادۃ الصبیان، رقم الحدیث ۵۶۵۵، ۱۰/۱۱۸۔
[2] ملاحظہ ہو:اس کتاب کے صفحات ۳۰۔۳۲۔
[3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۱۵۶۔