کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 137
۷: عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاں پہلی بیٹی کی وفات پر انہیں دوسری بیٹی کا رشتہ دینا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادوں کے ساتھ حسن سلوک کے شواہد میں سے ایک یہ ہے، کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ، جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، کا انتقال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کردیا، اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی دی، کہ انہوں نے یہ نکاح وحیِ الٰہی سے کیا ہے ۔ امام طبرانی نے حضرت ام عیاش رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلُثُوْمٍ إِلَّا بَوَحْيٍ مِنَ السَّمَآئِ۔‘‘([1])
’’میں نے ام کلثوم کو عثمان رضی اللہ عنہما کی زوجیت میں آسمان سے آنے والی وحی ہی کی بنا پر دیا ہے۔‘‘
(۱۵)
اولاد کی بیماری اور وفات پر صبر
دنیا کے سنگین صدموں میں سے ایک اولاد کی وفات کا صدمہ ہوتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صدمے کا متعدد مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔ سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری اولاد کی موت کی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال صبر و استقامت سے اس دکھ کو برداشت کیا۔([2])توفیقِ الٰہی سے
[1] منقول از: مجمع الزوائد و منبع الفوائد، کتاب المناقب، باب تزویجہ رضی اللّٰه عنہ (أي عثمان)، ۹/۸۳۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ طبرانی نے [المعجم] الکبیر اور الأوسط میں اسے روایت کیا ہے اور سابقہ شواہد کی بنا پر اس کی [سند حسن] ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۹/۸۳)۔ سابقہ شواہد سے مراد وہ روایات ہیں، جو کہ حافظ ہیثمی نے اپنی کتاب [مجمع الزوائد] کے اسی باب میں اس سے پہلے ذکر کی ہیں۔
[2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں، کل چھ کے ہونے پر، تو اتفاق ہے۔ اس سے زائد تعداد میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس بات پر بھی اتفاق ہے، کہ سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد آپ کی زندگی میں فوت ہوگئی۔ (ملاحظہ ہو: جوامع السیرۃ ص ۳۸۔ ۴۰؛ وزاد المعاد ۱/۱۰۳۔۱۰۴؛ والفصول في سیرۃ الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم ص ۲۴۱۔ ۲۴۲؛ وسیرۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم مصنفہ مولانا نعمانی ومولانا ندوی ص ۲۵۴۔۲۵۹۔