کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 134
حاضر ہوگئے۔([1]) قصّے سے معلوم ہونے والی دو باتیں: ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کو ترغیب دے کر اپنے داماد ابوالعاص کا مال واپس کروایا۔ اور ترغیب بہت پُر زور اور موثر انداز سے دی۔ ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: [بے شک اس آدمی کے ساتھ ہمارے تعلق کو تم یقینا سمجھتے ہو…] اور پھر فرمایا [اگر تم بطور احسان اس کو مال واپس کردو، تو بلاشبہ ہم اس کو پسند کرتے ہیں۔] ب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین سلوک کا اثر کس قدر ہوا…! مکہ مکرمہ پہنچ کر قریش کا مال واپس کردینے کے فوراً بعد اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ یہ بھی بتلایا، کہ ان کا ارادہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو ہی یہ اعلان کرنے کا تھا، لیکن قریش کی بدگمانی کے خدشے کے پیش نظر ایسے نہ کیا۔ ۵: داماد کی سچ گوئی اور ایفائے عہد کی برسرِ منبر تعریف: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت مِسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ثُمَّ ذَکَرَ صِہْرًا لَہُ مِنْ بَنِيْ عَبْدِ شَمْسٍ، فَأثْنٰی عَلَیْہِ فِيْ
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۲۳۷۔ امام حاکم نے اس کی یہ سند نقل کی ہے: قال ابن اسحٰق وحدثني عبد اللّٰه بن أبي بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرۃ عَن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا ۔ ابن اسحاق کے بارے میں بات گزر چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو اس کتاب کا ص۱۲۸)۔ عبد اللہ بن ابی بکر کے متعلق حافظ ابن حجر نے [ثقۃ من الخامسۃ] اور عمرۃ (بنت عبدالرحمن بن سعد بن زرارۃ الأنصاریۃ] کے متعلق [ثقۃ من الثالثۃ] لکھا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب ص ۷۵۰)۔