کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 130
عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ أَدْنَاھُمْ۔‘‘([1]) ’’اے لوگو! تمہارے اس [بات] کے سننے تک مجھے [خود] اس بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ خبردار! سب سے کم درجہ کا مسلمان بھی سب [مسلمانوں] کی طرف سے امان دے سکتا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے:’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [’’جس کو زینب نے پناہ دی، ہم نے اسے پناہ دی۔ بلاشبہ سب سے کم درجہ کا مسلمان بھی سب [مسلمانوں]کیطرف سے پناہ دے سکتا ہے۔‘‘ ([2]) ایک اور روایت میں ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَيْ بُنَیَّۃَ! أَکْرِمِيْ مَثْوَاہُ، وَلَا یَخْلُصْ إِلَیْکِ، فَإِنَّکِ لَا تُحِلِّیْنَ لَہُ۔‘‘([3]) [’’اے میری بیٹیا! انہیں با عزت رہائش دو، (البتہ) وہ تمہارے قریب نہ پہنچے، کیونکہ بے شک تم، اس کے لیے حلال نہیں ہو۔‘‘]
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۴/۴۵۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کے [راویوں کو ثقہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش سیر أعلام النبلاء ۲/۲۴۸)۔ [2] المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۴؍۴۵۔ [3] المرجع السابق ۳/۲۳۷۔ امام حاکم نے اس روایت کی یہ سند نقل کی ہے: ’’قال ابن اسحاق فحدثنی یزید بن رومان عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہما ۔‘‘ ابن اسحق کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’صدوق یدلّس‘‘ (تقریب ص ۴۶۷) ؛ لیکن اس روایت میں انہوں نے (حدثني) کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے، اس لیے ان کا مدلس ہونا، اس روایت پر اثر انداز نہ ہوگا۔ ’’یزید بن رومان‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر نے [ثقہ] اور عروۃ (بن الزبیر رضی اللہ عنہما ) کے متعلق [ثقہ فقیہ مشہور] لکھا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب ص ۶۰۱، و ص ۳۸۹)۔ نیز ملاحظہ ہو: الطبقات الکبریٰ ۸؍۳۳۔