کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 128
فَافْعَلُوْا۔‘‘ [’’اگر تم مناسب سمجھو، تو اس کے لیے اس کے قیدی کو چھوڑ دو اور اس کا (بھیجا ہوا) مال بھی اسے واپس کردو۔‘‘] انہوں [یعنی حضرات صحابہ] نے عرض کیا: ’’نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ ’’جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ انہوں نے اس کو چھوڑ دیا، اور ان کا مال (بھی) انہیں لوٹا دیا۔([1]) اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کو اس بات کی ترغیب دی، کہ وہ ان کے داماد کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے، انہیں بلا فدیہ چھوڑ دیں۔ حضراتِ صحابہ نے وہی کیا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا تھا۔ حدیث شریف میں ایک اور فائدہ : صاحبزادی کے ارسال کردہ ہار کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید رقّت کا طاری ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے قلبی تعلق اور گہرے لگاؤ کو بیان کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۶۳۶۲، ۴۳/۳۸۱؛ وسنن أبي داود، کتاب الجہاد، باب في فداء الأسیر بالمال، رقم الحدیث ۲۶۸۹، ۷/۲۵۴؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۴/۴۴۔۴۵۔ امام حاکم نے اسے [مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ شیخ البانی نے ابوداؤد کی [حدیث کو حسن] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴/۴۵؛ والتلخیص ۴/۴۵؛ وصحیح سنن أبي داود ۲/۵۱۳؛ وھامش المسند ۴۳/۳۸۱)۔