کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 115
[کیا تمہیں معلوم نہیں، کہ یقینا ہم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘]
علامہ عینی لکھتے ہیں:
’’یہ لفظ کسی ایسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے، جس کی حرمت وغیرہ واضح ہو، اگرچہ مخاطب اس سے آگاہ نہ(بھی) ہو اور مراد یہ ہے، کہ اتنی واضح بات تم پر کیسے مخفی رہی اور اس میں (لَا تَفْعَلْہُ) [اس کو نہ کرو] سے زیادہ سخت جھڑکی ہے۔‘‘([1])
۲: کھجور کو پھینکنے کا حکم دینا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے احتساب میں صرف سرزنش کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ کھجور کو منہ سے پھینکنے کا حکم بھی دیا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’کِخْ کِخْ۔ اِرْمِ بِہَا، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّا لَا َنأْکُلُ الصَّدَقَۃَ ؟ ‘‘([2])
[’’کخ کخ۔ اسے پھینک دو، کیا تم جانتے نہیں،کہ بے شک ہم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘]
اور المسند میں ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:
’’أَلْقِہَا یَا بُنَيَّ! أَلْقِہَا یَا بُنَيَّ! أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا یَأْکُلُوْنَ الصَّدَقَۃَ۔‘‘([3])
’’اے میرے چھوٹے سے بیٹے! اسے پھینک دو۔ اے میرے چھوٹے سے بیٹے! اسے پھینک دو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں، کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘
[1] عمدۃ القاری، ۹/۸۶؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۳۵۵۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب تحریم الزکاۃ علٰی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم …، جزء من رقم الحدیث ۱۶۱۔(۱۰۶۹)، ۳/۷۵۱۔
[3] المسند، جزء من رقم الحدیث ۹۲۶۷، ۱۵/۱۵۲۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو مسلم کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے۔ (ھامش المسند ۱۵/۱۵۲)۔