کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 112
انہوں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فَإِنِّيْ أُحِبُّ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا فَأَحِبَّھَا۔‘‘ ([1])
[’’پس میں یقینا عائشہ سے محبت کرتا ہوں، سو تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘]
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
’’لَا أَقُوْلُ لِعَائِشَۃَ شَیْئًا یُؤْذِیْھَا أَبَدًا‘‘
[’’میں کبھی بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسی بات نہ کہوں گی، جو ان کے لیے باعثِ اذیّت ہوگی۔‘‘]
قصہ سے معلوم ہونے والی پانچ باتیں:
۱: عالی مقام لوگوں میں بھی بسا اوقات ناخوش گوار صورت پیدا ہوسکتی ہے۔
۲: احتساب کرنے سے پیشتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سببِ احتساب کے متعلق تسلّی کرلینا۔
۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احتساب میں اسلوب عاطفی([2])استعمال فرمانا اور اس مقام پر اس جیسا موثر اور پُر زور کوئی اور اسلوب نہ تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۴: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی، کہ اپنی کہی ہوئی بات سے انکار نہ کیا۔
۵: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی فرمانبرداری، کہ قابلِ اعتراض بات کہنے سے ہمیشہ دور رہنے کے عزم کا فوری اعلان۔
[1] مسند أبی یعلی الموصلی، رقم الحدیث ۵۹۹۔۴۹۵۵، ۸/۳۶۵۔ شیخ حسین سلیم اسد نے ایک راوی مجالد بن سعید کی بنا پر اس کو ضعیف کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۸/۳۶۵)؛ لیکن حافظ ہیثمی نے مجالد کو [حسن الحدیث] قرار دیا ہے، اور باقی راویان کے متعلق کہا ہے، کہ وہ صحیح کے راویوں میں سے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے، کہ ابویعلی کے علاوہ بزار نے اس کو اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۹/۲۴۲)۔
[2] ایسا اسلوب ، کہ اس میں مخاطب کے جذبات کو اُبھارا جائے۔