کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 97
کڑیاں اوردیواروں کی کھونٹیاں بھی لادلیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا اور چھ سو اونٹوں پر لدلدا کر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاً حیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی۔ صرف دو آدمیوں یعنی یامین رضی اللہ عنہ بن عمرو اور ابوسعید رضی اللہ عنہ بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط کے مطابق بنونضیر کے ہتھیار، زمین، گھر اور باغات اپنے قبضے میں لے لیے ہتھیار میں پچاس زرہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔
س:۱۰۵… مدینہ طیبہ میں آباد تیسرے یہودی قبیلہ بنو قریظہ کا صفایا کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟
ج:۱۰۵… بنو قریظہ کے مدینہ منورہ سے صفایا کرنے کا سبب اور اس کی تفصیل یوں ہے کہ:جنگ احزاب کے موقعہ پر(شوال سنہ ۵ ہجری میں)جب قریش مکہ اپنے ہمراہ خیبر میں آباد یہود بنی نضیر اور جزیرۃ العرب کے دیگر مشرکین و کفار کو ساتھ لے کر(دس ہزار کے لشکر کی تعداد میں)مدینہ منورہ میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے تو دورانِ جنگ بنوقریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے حلیفانہ معاہدہ کو توڑ ڈالا اور اس مشکل ترین وقت میں انھوں نے مشرکین کا ساتھ دیا۔(مسلمانوں کو نقصان بھی پہنچایا)چنانچہ جب جنگ خندق انتہا کو پہنچ گئی اور جنگ کا فیصلہ اللہ عزوجل کی خاص مدد کے ساتھ کافروں، مشرکوں کی پوری رسوائی سے واپسی کے ساتھ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی قریظہ کے یہودیوں کا گھراؤ کرکے انھیں قتل کردینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کے محلہ کی طرف نکل کر ان کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ پچیس راتوں تک جاری رہا۔ اور پھر یہ لوگ بنو اوس کے سردار سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم اور فیصلہ پر اپنے قلعوں سے نیچے اُترے۔ بنو اوس زمانۂ جاہلیت میں بنو قریظہ کے حلیف تھے۔(اور اس موقع پر بھی ان یہودیوں نے سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کے بارے میں جناب سعد رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا:تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل