کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 96
بلند ہوں۔(بویرہ! بنو نضیر کے نخلستان کا نام تھا)‘‘
اور اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا:
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلیٰٓ اُصُولِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ o﴾(الحشر:۵)
’’ تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنھیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کو رسوا کرے۔ ‘‘
بہرحال جب ان کا محاصرہ کرلیا گیا تو بنوقریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی اور ان کے حلیف غطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انھیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی:
﴿کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیئٌ مِّنْکَ ط﴾(الحشر:۱۶)
’’ جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں۔ ‘‘
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا بلکہ صرف چھ رات… یا بقول بعض پندرہ رات… جاری رہا کہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے، وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلا وطنی کی پیش کش منظور فرمالی اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ اسلحہ کے سوا باقی جتنا سازو سامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں، سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اُکھاڑ ڈالے تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لادکر لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی