کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 95
کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا، اس لیے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کرنا ہو کرلیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورتِ حال نازک تھی، کیوں کہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکڑاؤ کچھ زیادہ مفید و مناسب نہ تھا۔ انجام خطرناک ہوسکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ ہی رہے ہیں کہ سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جاچکے تھے۔ پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے، مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات نے جو نئی کروٹ لی تھی اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بدعہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبۂ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا۔ لہٰذا انھوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پروگرام بنایا تھا۔ اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے۔ خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرامؓ نے کہا:اللہ اکبر؛ اور پھر لڑائی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنو نضیر کے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں علم تھا بنو نضیر کے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصرہ کرلیا گیا۔ ادھر بنونضیر نے انے قلعوں اور گڑھوں میں پناہ لی اور قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے۔ چوں کہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کا کام دے رہے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے۔ بعد میں اسی کی طرف اشارہ کرے حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: وَھَانَ عَلیٰ سَرَاۃ بنی لؤی حَرِیْقٌ بالبُوَیْرَۃ مُسْتَطِیْر ’’ بنی لؤی کے سرداروں کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ بویرۃ میں آگ کے شعلے