کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 94
جائے اور آپ کے سر پر گرا کر آپ کو کچل دے۔ ‘‘ اس پر ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش نے کہا:میں… ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا کہ بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ خدا کی قسم! انھیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد و پیمان ہے، یہ اس کی خالف ورزی بھی ہے، لیکن انھوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو رو بہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔ ادھر ربّ العالمین کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے اُٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی آپ سے آن ملے اور کہنے لگے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہود کا کیا ارادہ تھا۔ مدینہ واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انھیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمھیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا، اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کار سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔ لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو، ڈٹ جاؤ اور گھر بار نہ چھوڑ۔ میرے پاس دو ہزار مردانِ جنگی ہیں، جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہو کر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے اور اگر تمھیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکالے جائیں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے؛ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔ یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی اور انھوں نے طے کرلیا کہ جلا وطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار حیی بن اخطب کو توقع تھی کہ رأس المنافقین نے جو