کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 93
منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ(جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گذرا تھا)رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی، البتہ انھیں حکم دیا کہ وہ مدینے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں ؛ چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کرلیے۔ جن میں سے تین کمانیں، دو زِرہیں، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کا کام محمد بن مسلمہ نے انجام دیا۔ [1]
س:۱۰۴… بنو نضیر کے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے کیسے اور کیوں نکالا گیا؟
ج:۱۰۴… یہود بنی نضیر کی مدینہ منورہ سے جلاوطنی کی داستان کچھ یوں ہے کہ؛ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنوکلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی… جنھیں حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن اُمیہ ضمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا… ان پر معاہدے کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ اُنھوں نے کہا:’’ ابوالقاسم! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپ یہاں تشریف رکھئے ہم آپ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ ‘‘ آپ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی۔
ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا اور جو بدبختی ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کیا۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے کہا:’’ کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر
[1] زاد المعاد: ۲/۷۱،۹۱۔ ابن ہشام: ۲/۴۷،۴۸،۴۹۔