کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 92
انتظار کرنے لگے۔ ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی؛ چنانچہ تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ انھوں نے مدینے میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بند کرلی۔ ابن ہشام نے ابو عون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر(کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی، جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اُسے مار ڈالا۔ جواباً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔ [1] اس واقعے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابولبابہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر کو سونپا اور خود، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر اللہ کے لشکر کے ہمراہ بنوقینقاع کا رُخ کیا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصرہ کرلیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال سنہ ۲ ھ کی ۱۵ تاریخ۔ پندرہ روز تک… یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک… محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست و ہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے؛ چنانچہ بنوقینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان و مال، آل و اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے، انھیں
[1] ابن ہشام: ۲/ ۴۷، ۴۸۔