کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 9
کے)پیغمبروں سے اقرار لیا(یا ہر ایک پیغمبر سے)کہ میں جو تم کو کتاب اور شریعت دوں تو اگر کوئی رسول ایسا آئے جو تمہاری کتاب کو سچ بتائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا فرمایا(اللہ تعالیٰ نے)کیا تم نے یہ اقرار اور میرے اس عہد کو قبول کیا(یہ بوجھ اپنے ذمے لیا)انہوں نے عرض کیا:ہم نے اقرار کر لیا فرمایا(دیکھو)گواہ رہو(ایک دوسرے پر یا فرشتو تم گواہ رہو)میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔‘‘
ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دال ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد ہر نبی سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی تصدیق اور اس کی مدد کرے گا اور اس بارے میں کسی قسم کی گروہ بندی اور عصبیت اس کے راستہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔اگر وہ نبی اس کی زندگی میں آجائے تو بذاتِ خود اس پر ایمان لائے گا اور اگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی اُمت کو بعد میں آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم دے جائے گا۔ اس اعتبار سے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے۔ بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے تمام انبیاء سے فرداً فرداً یہ عہد لیا گیا تھا کہ اگر ان کے زمانے میں نبی آخر الزمان ظاہر ہو جائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ہوگا۔ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الاتباع ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں چند اوراق تھے جو اُن کو کسی یہودی نے توراۃ سے لکھ کر دیے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اوراق پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آج تم میں موسیٰ بھی آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘(دارمی)