کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 8
چل کر ان اقوام کے آثار دیکھ لو۔ بظاہر تباہ شدہ قومیں دنیاوی اعتبار سے اپنے اپنے دور کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوال ہوا کرتی تھیں مگر حق، سچ اور توحید رب کبریاء کی مخالفت انہیں لے ڈوبی۔
نہایت عقل مندوں، داناؤں، سمجھ داروں اور حقیقت شناس لوگوں کے لیے جو حقیقت ہم نے اُوپر بیان کی ہے کوئی بھی عدل و انصاف اور عقل و فہم سے کام لینے والا شخص جہاں ان باتوں کا انکار نہیں کر سکتا وہاں ایسے ہی صاحب بصیرت لوگ اس حقیقت اور دنیا کی سب سے بڑی سچائی کو بھی تسلیم کیا کرتے ہیں کہ:دنیا جہان کے تمام خطوں، علاقوں، ملکوں، شہروں اور دیہاتوں کے بلا امتیاز سب انسانوں کے لیے ہر دور کے تمام لوگوں کے لیے روئے زمین کے سابقہ تمام راہنماؤں، قائدین اور انبیاء و رسل میں مکمل راہنمائی اور قیادت و اُسوۂ حسنہ کے مکمل اوصاف و شرائط رکھنے والی اگر کوئی شخصیت ہے تو وہ آج سے(تادمِ تحریر:۹/جمادی الثانیہ ۱۴۲۸ھ)ایک ہزار چار سو اکیاسی قمری سال اور تین ماہ قبل جزیرۃ العرب کے مرکزی شہر مکہ مکرمہ میں عربوں کے قدیم تر قبیلہ بنو قریش کی شاخ بنو ہاشم کے ایک سردار عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کے ہاں پیدا ہونے والے اس عظیم ترین شخصیت ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی ہے کہ جن کے متعلق سابقہ تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی اُمتوں کو اس بات کی تاکید کر کے دنیا سے رُخصت ہوئے تھے کہ:اگر اُن کی موجودگی اور زندگی میں دنیا کا یہ سب سے اعلیٰ و ارفع رہبر و راہنما مبعوث ہو کر تشریف لے آئے تو وہ فوراً اس کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ o﴾(آل عمران:۸۱)
’’اور(اے پیغمبر! ان لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ)جب اللہ تعالیٰ نے(بنی اسرائیل