کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 74
ج:۷۵… نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس اُمت کے سب سے افضل و اعلیٰ فرد سیّدنا ابوبکر صدیق اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہما تھے۔
س:۷۶… ہجرت والی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر کون سویا تھا؟ اور آپؐ نے اُن کے ذمہ یہ کام کیوں لگایا تھا کہ وہ آپ کے بستر پر سوئیں ؟
ج:۷۶… ہجرت کی رات(۲۷ صفر سنہ ۱۴ سالِ نبوت بمطابق ۱۲ اور ۱۳ ستمبر ۶۲۲ء کی درمیانی رات)نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر سونے والے سیّدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ وارضاہ تھے۔
ہوا یوں تھا کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے پر اتفاق کرلیا تھا اور پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ جب آپ گھر سے باہر نکلیں گے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں گے۔
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انھیں اپنی ناکامی و نامرادی کا علم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس کا انتظار کررہے ہیں ؟ انھوں نے کہا:محمدؐ کا۔ اس نے کہا:آپ لوگ ناکام و نامراد ہوئے۔ اللہ کی قسم! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تو آپ لوگوں کے پاس سے گذرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔ انھوں نے کہا؛ بخدا! ہم نے تو انھیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اُٹھ پڑے۔
لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ کہنے لگے:اللہ کی قسم! یہ تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اُٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے۔ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہؐ کہاں ہیں ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:مجھے معلوم نہیں۔ [1]
[1] ابن ہشام: ۱/۴۸۲، ۴۸۳۔