کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 68
درج ذیل احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل(نمازِ تہجد)کو بہت لمبا کرکے پڑھا کرتے تھے۔
(۱) سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں نے ایک رات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو کر تہجد کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میری نیت بگڑگئی۔ راوی حدیث ابووائل پوچھنے لگے:’’ آپ کے دل میں کیا آیا تھا؟ ‘‘ اُنھوں نے کہا:’’ میرے دل میں آیا کہ میں بیٹھ جاؤں یا یہ کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑدوں۔‘‘(مگر چھوڑا نہیں اور شیطان کے وسوسہ کو دُور کرکے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لمبا قیام کیے رکھے۔)[1]
(۲) سیّدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ تہجد پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(پہلی رکعت میں)سورۃ البقرہ شروع کردی۔ میرے دل میں آیا کہ آپ سو آیات کے بعد رکوع کرلیں گے، مگر آپ آگے بڑھ گئے۔ میرے دل میں اس کے بعد خیال آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں سورۃ البقرہ مکمل پڑھیں گے اور رکوع کرلیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ اور آپؐ نے سورۃ النساء شروع کردی اور اسے بھی مکمل پڑھ ڈالا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ آل عمران شروع فرمالی اور اسے بھی مکمل پڑھ لیا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔(اور جلدی نہیں کرتے تھے۔)اور آپ جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرتے کہ جس میں اللہ کی تسبیح کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ کہتے۔ اور جب آپ کا گزر(دورانِ قرأت)کسی ایسی آیت سے ہوتا کہ جس میں سوال(مانگنے)کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگنے کی دُعا پڑھتے۔ اور جب تعوذ کی آیت سے گزرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور رکوع میں ’’ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمُ ‘‘ پڑھنے لگے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کا رکوع بھی قیام کے برابر برابر تھا۔
[1] صحیح البخاري/ کتاب التہجد/ حدیث: ۱۱۳۵۔ وصحیح مسلم/ حدیث: ۱۸۱۵۔