کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 67
جبکہ دوسرے مقام پر اللہ عزوجل کا ارشاد یوں ہے:
﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o﴾(الاسراء:۷۹)
’’ اور رات کو کسی وقت جاگ اُٹھ(تہجد کی نماز پڑھ)یہ زیادہ ہے تیرے لیے عجب نہیں کہ(اس کی برکت سے)تیرا مالک تجھ کو(قیامت میں)مقام محمود تک پہنچائے۔ ‘‘ [1]
اور اللہ ربّ العالمین اپنے مومن بندوں کی اس ضمن میں صفت عالیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o اٰخِذِیْنَ مَا اٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o﴾(الذاریات:۱۵۔۱۸)
’’ بے شک پرہیزگار(اللہ سے ڈرنے والے اُس دن)باغوں اور چشموں میں(مزے کرتے)ہوں گے، اُن کو جو ان کا مالک دیتا جائے گا، لیتے جائیں گے۔(اللہ دے اور بندہ لے نعمت پر نعمت)بے شک یہ لوگ(بہشت میں جانے سے)پہلے ہی نیک تھے۔ رات کو تھوڑاہی سوتے تھے اور سحر کے وقت(یا صبح سویرے)استغفار کرتے رہتے تھے۔ ‘‘ [2]
[1] یعنی فرض نماز کے علاوہ یہ خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نفل ہے کیونکہ آپ مغفور الذنب ہیں۔ بعض نے لکھا ہے یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک نماز فرض ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں بھی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: وتر، مسواک، اور تہجد مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لیے نفل۔ مگر یہ دوسری احادیث صحیحہ کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم۔ (قرطبی)
[2] یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں تہجد کی نماز کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے لوگو! عریبوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کرتے رہو… اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تو نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے۔ (ابن کثیر)