کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 66
ہی رہیں لیکن اللہ عزوجل نے ان کااجر پچاس کا ہی رکھا ہے۔ یہ اُس کی خاص رحمت و محبت کا ثبوت ہے، اس اُمت کے ساتھ۔
س:۶۶… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر حرص و طمع کا ذکر کرتے ہوئے مدلل گفتگو کیجیے اور یہ بھی بتلائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز(صلوٰۃ)کیسے پڑھا کرتے تھے؟
ج:۶۶… اللہ عزوجل نے اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل(نمازِ تہجد)کا حکم فرما رکھا تھا۔ چنانچہ اس ضمن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰٓـاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o﴾(المزمل:۱۔۴)
’’ اے کپڑا لپیٹنے والے۔(ساری)رات(نماز میں)کھڑا رہ۔ مگر تھوڑی رات(آرام کر)آدھی رات یا اس سے کچھ کم(تہائی رات)یا اُس سے(کچھ)زیادہ(دو تہائی رات)اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اچھی طرح سے پڑھا کر۔ ‘‘ [1]
[1] یہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، کیونکہ شروع میں جب حضرت جبریل علیہ السلام وحی الٰہی لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپکپی سی طاری ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمبل اوڑھ لیتے۔ چنانچہ جب پہلی مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام وحی لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمانے لگے: (( زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ، زَمِّلُوْنِیْ۔))… ’’ مجھے کپڑا اوڑھادو ‘‘ اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لفظ سے خطاب کیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز فرض تھی، جیسا کہ سورۂ اسراء کی آیت ۷۹ کے تحت بیان ہوچکا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آدھی رات عبادت کیجیے اور آدھی رات سویئے یا دو تہائی رات عبادت کیجیے اور تہائی رات سویئے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم انہی مختلف مقداروں میں تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ حکم… جیسا کہ صحیحین اور سنن کی کتابوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے… ایک سال تک رہا۔ اگلے سال جب اسی سورہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو اس میں تخفیف کردی گئی۔ (شوکانی)
یعنی اس طرح کہ ہر ایک حرف کا الگ الگ پتا چلے اور پڑھتے وقت قرآن کا مفہوم بھی ذہن میں آئے۔ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ہر آیت پر قطع (وقف)فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (ابن کثیر)