کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 65
حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبار تبارک وتعالیٰ کے حضور لے گئے، اور وہ اپنی جگہ تھا… بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے…اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے لائے گئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذر ہوا تو اُنھیں خبردی۔ انھوں نے کہا:آپؐ اپنے رب کے واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و رفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں۔ اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہو رہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ ‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ [1] تو نماز کی فرضیت کے اس موقع پر نبی رحمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے مابین کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس سے ایک تو سیّد الانبیاء والرسل، امام الجنۃ والبشر محمد النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان معلوم ہوئی اور دوسری نماز کی اہمیت و فضیلت اور اس کی اللہ کے ہاں قدر و منزلت و رفعت شان معلوم ہوئی۔ س:۶۵… سب سے پہلے اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر(اور آپ کی اُمت پر)کتنی نمازیں فرض ہوئی تھیں ؟ اور اُس پیغمبر کا کیا نام ہے کہ جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اللہ ربّ العالمین سے نمازوں میں تخفیف کروالینے کی طرف مبذول کروائی تھی؟ ج:۶۵… اس سوال کے جواب کی وضاحت پچھلے جواب میں آچکی ہے کہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں، مگر ان میں تخفیف ہوتے ہوتے بالآخر یہ پانچ رہ گئیں۔ اور اس تخفیف کے لیے سیّدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تھی۔ اُمت اسلامیہ کے لیے شب و روز(چوبیس گھنٹوں والے دن)میں نمازیں فرض تو پانچ
[1] زاد المعاد: ۲/ ۴۷، ۴۸۔