کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 64
لیے مقرر کی ہے کہ کافر(یہ سن کر)گمراہ ہوں(اور)اس لیے کہ کتاب والوں(یہود اور نصاریٰ کو)یقین پیدا ہو اور ایمان والوں کا ایمان بڑھے اور کتاب والوں اور ایمان داروں کو(قرآن کی سچائی میں)کوئی شبہ نہ رہے اور اس لیے کہ کافر اور جن کے دل میں(شک کی)بیماری ہے وہ یوں کہیں بھلا اس انیس کی گنتی سے اللہ تعالیٰ کی کیا غرض ہے۔ اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے بھٹکادیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ پر لاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لشکر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ باتیں تو بس لوگوں کی نصیحت کے لیے بیان کی گئی ہیں(نہ اور کسی غرض سے)۔‘‘ س:۶۴… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز کب اور کہاں پر فرض ہوئی تھی؟ اور کیا جب نماز فرض ہوئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ بھی تھا؟ اس سے کس بات پر استدلال کیا جاسکتا ہے؟ ج:۶۴… نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نماز فرض کی گئی تو اس وقت آپ معراج کی رات آسمانوں پر تھے۔(یعنی نمازکا تحفہ اہل ایمان و اسلام کے نبی کو دنیا پر نہیں بلکہ آسمانوں پر بلا کر عطا کیا گیا تھا۔)سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور بیت معمور کی زیارت کے بعد نبی مکرم ختم الانبیاء والرسل احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہٖ اجمعین کو پھر خدائے جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گذرے تو انھوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز کا حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پچاس نمازوں کا؟ انھوں نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیے اور اپنی اُمت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ ہاں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ اس کے بعد