کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 6
جھٹلانے والے، جہالت و خباثت اور کفر و شرک کا راستہ اپنانے والے تباہ ہو جاتے۔ اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر اس انداز میں بیان فرمایا ہے: ﴿مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًاo وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًاo﴾(الاسراء:۱۵،۱۶) ’’جو شخص سیدھے رستے پر چلا(اچھے کام کیے)تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے سیدھارستہ چلتا ہے اور جو شخص(سیدھے رستے سے بھٹک گیا(اور بُرے کاموں میں پھنس گیا)تو اس کا وبال اسی کو بھگتنا ہو گا(دوسرے کا کچھ نقصان نہ ہوگا)اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔اور ہم اس وقت تک کسی کو عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کوئی پیغمبر نہ بھیجیں اور جب ہم کسی بستی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے چین اُڑانے و الوں کو حکم دیتے ہیں ہیں پھر وہ اس بستی میں بدکاریاں کرنے لگتے ہیں آخر(اپنی بدکاریوں کی وجہ سے)وہ بستی عذاب کے لائق ہو جاتی ہے تب اس کو اُکھاڑ کر ہم پھینک دیتے ہیں۔‘‘ دنیا کے ہر خطے پر پائے جانے والے آثارِ قدیمہ اسی حقیقت اور سچائی کی گواہی دے رہے ہیں۔۰ پھر ان آثارِ قدیمہ سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لیے اللہ رب العالمین اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ: ﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلاَّ رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنْ اَھْلِ الْقُرٰی اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْا اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ o حتی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ o لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ