کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 49
(دوسرے جنوں)کے پاس لوٹ گئے اُن کو(اللہ تعالیٰ کے عذاب سے)ڈرانے لگے۔(بھائیو! ہم ایک کتاب سن کر ائے ہیں جو موسیٰ کے بعد اتری ہے، وہ اگلی(آسمانی)کتابوں کو سچ بتاتی ہے اور سچا دین اور سیدھا رستہ دکھلاتی ہے۔ بھائیو! اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا مانو اور اس پر ایمان لاؤ اللہ تمہارے گناہ(یا کچھ گناہ)بخش دے گا اور تم کو تکلیف کے عذاب سے(آخرت کے عذاب سے)بچادے گا اور جو کوئی اللہ کی(طرف)بلانے والے(اس پیغمبر)کا کہنا نہ مانے گا، وہ اللہ تعالیٰ کو(کہیں ساری زمین پر تھکا نہیں سکتا اور اللہ کے سوا کوئی اس کا حمایتی نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ ‘‘ [1]
[1] جنوں کے متعلق جس واقعہ کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ صحیحین وغیرہ کی متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بطن نخلہ میں پیش آیا جو مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنوں کو آسمان کی کچھ خبریں مل جایا کرتی تھیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا اور جِنّ خبریں حاصل کرنے کے لیے اوپر جاتے تو ان کو کثرت سے شہب کی مار پڑتی۔ اس پر انھیں خیال ہوا کہ زمین میں ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر سخت پہرے بٹھادیئے گئے ہیں۔ اس جستجو میں جنّوں کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ علیہ السلام کے ساتھ سوق عکاظ جاتے ہوئے بطن نخلہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جنّوں کی ایک جماعت وہاں آپہنچی۔ اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا، جس کا ان آیات میں تذکرہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بعثت سے کچھ بعد کا واقعہ ہے۔ بعض اصحاب سیرت نے اسے ہجرت سے کچھ پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے زخمی ہو کر بطن نخلہ مین قیام فرما تھے۔ علمائے تفسیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حج کے دنوں کا واقعہ ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے باہر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ جنّوں کی پہلی آمد کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اُن کو دیکھا اور نہ ان کی آمد کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا۔ حتی کہ سورۂ جن کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مفصل حال معلوم ہوا۔ اس واقعہ کے بعد بہت بڑی تعداد میں جن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرکے ہدایت یاب ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو احکام بھی سنائے۔ ایک ملاقات کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بھی آنحضرتؐ کے ساتھ گئے تھے۔ (ابن کثیر)قرآن و حدیث کا وجود ثابت ہے۔ سلف صالح اور خلف جنوں کے وجود کو بالاجماع مانتے ہیں اس کے باوجود جو شخص ان کے وجود کا منکر ہے، اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ (سلفیہ)
س:۳۳… مشرکین نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ ابتر ‘‘ بھی کہا تھا۔ اس لفظ ابتر کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسا کیوں کہا تھا؟ اور پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کا جواب کس طرح سے دیا؟