کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 23
رب العالمین فقیر، تہی دست ہے اور اس کا(سخاوت والا)ہاتھ تنگ ہے۔[1] جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تو جو کچھ وہ ظالم کہہ رہے تھے بہت ہی زیادہ عزت و سر بلندی والا ہے۔ ان خرافات و مشرکانہ عقائد کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں فواحش اور ہلاکت خیز رسوم و عادات بھی پھیل چکی تھیں اورایک دوسرے پر ظلم و استبداد عام تھا۔(کہیں پر امن و حفاظت کی جگہ نہ تھی۔ مضبوط، طاقتور، کمزور کو یا قتل کر دیتا یا اُس کا مال اسباب چھین لیتا۔[2] دولت مند، تہی دست
[1] جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ عزیز میں یہودیوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ: ﴿وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا وَاَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ o﴾ (المائدۃ:۶۴)… ’’ اور یہودی کہتے ہیں اللہ کا ہاتھ (ان دنوں )تنگ ہے۔ انھیں کے ہاتھ تنگ ہیں اور وہ ایسا (بے ادبی کا کلمہ)کہنے سے پھٹکارے گئے۔ نہیں اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ (اے پیغمبرؐ)جو تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر اترا ہے (یعنی قرآن)وہ ان میں سے (یعنی یہود و نصاریٰ میں سے)بہتیروں کی شرارت اور کفر کو ضرور بڑھادے گا اور ہم نے ان میں (یعنی یہودیوں میں آپس میں )قیامت تک دشمنی اور کینہ ڈال دیا ہے (ان میں کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا)جب وہ (مسلمانوں سے)لڑنے کے لیے آگ سلگاتے ہیں (یعنی سامان کرتے ہیں )اللہ تعالیٰ اس کو بجھا دیتا ہے اور ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادیوں کو نہیں چاہتا۔ ‘‘ [2] نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی اس ضمن میں جو حالت تھی اُسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o﴾ (الروم:۴۱)… ’’ لوگ جو (برے)کام کر رہے ہیں (شرک اور کفر اور گناہ)ان کی وجہ سے خشکی اور تری میں خرابی پھیل گئی ہے۔ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے کچھ کاموں کی سزا ان کو (دنیا ہی میں )چکھائے تاکہ وہ (ان برے کاموں سے)باز آئیں۔ ‘‘ خشکی سے مراد زمین، تری سے مراد سمندر اور فساد (خرابی)سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے، چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، تنگ حالی، سیلاب اور زلزلہ وغیرہ کی صورت میں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ برو بحر (عالم)میں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں ، یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں۔ جب سے لوگوں نے توحید (دین فطرت)کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے اور شرک جیسے قولی اور اعتقادی ہوتا ہے، اسی طرح شرک عملی بھی ہے جو فسق و فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرک اعتقادی اور قولی تو جہنم میں خلود کا موجب ہوگا، مگر شرک عملی (فسق و معصیت)موجب خلود نہیں بنے گا۔ (کبیر۔ رازی)