کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 22
ایمان رکھتے تھے کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اللہ کا بیٹا ہیں۔ اور ایسے بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ(بنو اسرائیل کے ایک پیغمبر)جناب عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہیں۔[1] یا پھر ایک اکثریت یہ فاسد عقیدہ رکھتی تھی کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔[2] اور کچھ یہ گمان رکھتے تھے کہ(نعوذ باللہ)
[1] اسی بات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ہے: ﴿وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ o اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلاَّ لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o﴾ (التوبہ:۳۰،۳۱)’’ اور یہودی کہتے ہیں کہ عزیر (پیغمبر)اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح (پیغمبر)اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے یہ اُن کی منہ کی باتیں ہیں۔ لگے اگلے کافروں کی سی باتیں بنانے اللہ تعالیٰ اُن کو غارت کرے کہاں (یا کیسے)بہک گئے ہیں (یا کیسے بہکائے جارہے ہیں )ان لوگوں نے اپنے مولویوں اور درویشوں (عالموں اور مشائخین)کو اور مسیح مریم کے بیٹے کو اللہ کے سوا ( جو اکیلا الٰہ ہے)خدا بنا لیا۔ حالانکہ اُن کو (خدا کے پاس سے)اور کچھ نہیں یہی حکم ملا تھا کہ ایک (اکیلے سچے)اللہ کی پرستش کریں اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ( سب جھوٹے معبود ہیں )وہ ان لوگوں کے شرک سے پاک ہے۔‘‘
[2] جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اُس دور کے مشرکوں کی اس غلیظ حرکت اور فاسد عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَہٗ وَلَھُمْ مَّا یَشْتَھُوْنَ o﴾ (النحل:۵۷)’’اور کہتے ہیں اللہ کی بیٹیاں ہیں (فرشتوں کو اللہْ کی بیٹیاں بناتے ہیں )وہ پاک ذات ہے، اور اُن کو من مانے بیٹے ملے۔‘‘ ﴿فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ o اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِِنَاثًا وَہُمْ شٰہِدُوْنَ o اَ لَآ اِِنَّہُمْ مِّنْ اِِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ o وَلَدَ اللّٰہُ وَاِِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ o اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ o مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ o اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ o اَمْ لَکُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌ o فَاْتُوا بِکِتٰبِکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o﴾ (الصافات:۱۴۹ تا ۱۵۷)’’اب ان(مکہ کے)کافروں سے پوچھ کیا تیرے مالک کے لیے بیٹیاں ہیں اور اُن کے لیے بیٹے ہیں ، یا ہم نے فرشتوں کو عورت ذات بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے۔ سُن لے یہ اُن کا جھوٹ ہے۔ کہتے ہیں اللہ کی اولاد ہے اور وہ بے شک جھوٹے ہیں۔ بھلا کیا اس نے بیٹوں پر بیٹیوں کو پسند کیا۔ تم کو کیا ہوا ہے تم کیسا حکم لگاتے ہو۔ کیا تم سوچتے نہیں۔ یا تمہاے پاس ( اس بات کی )کوئی کھلی سند ہے۔ اگر سچے ہو تو اپنی کتاب لے کر آؤ۔‘‘ عرب کے بعض قبائل کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اسی جاہلی عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً نساء آیت ۱۱۷، نحل آیت ۵۷،۵۸، بنی اسرائیل آیت ۴۰، زخرف آیت ۱۶تا ۱۹ ، نجم آیت ۲۱تا ۲۷۔