کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 21
حمد و صلوٰۃ کے بعد:یقینا تمام باتوں سے بہتر اللہ کی کتاب ہے۔ تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کا ہے۔اور تمام کاموں سے بد ترین کام وہ ہیں جو(دین اسلام میں)اپنی طرف سے وضع کیے جائیں۔ دین میں ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔گمراہی کا انجام جہنم کی آگ ہے۔‘‘ عالم بشریت پر انتہا درجہ کے جاہلوں کی جاہلیت و جہالت اور بصیرت کے اندھیروں کی گمراہی کا وہ دور بھی(صدیوں پہلے)گزر چکا ہے کہ جس میں حق پوشیدہ تھا اور صراطِ مستقیم کے نشانِ راہ مٹ چکے تھے۔ صحیح دین حنیف کے پیرو کار دنیا میں باقی ہی نہ رہے تھے، سوائے چھوٹی سی ایک اقلیت کے جو ساداتنا عیسیٰ بن مریم اور موسیٰ بنی اسرائیل کے علیہم السلام کے دین کو تھامے ہوئے تھی۔ جہاں تک اس دور کے انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کا تعلق ہے تو وہ سب کے سب باطل طاغوت کی راہ پر رواں دواں تھے۔ یہ اغلبیت و اکثریت والے اللہ رب کبریاء کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتے اور اپنے خالق و مالک رب کی اس طرح قدر نہ کرتے جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔[1] ان میں سے ایسے بھی تھے جو یقین و
[1] جیسا کہ قرآنِ عزیز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّ ھُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًا وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَآؤُکُمْ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَo﴾ (الانعام:۹۲)’’اور اُن لوگوں نے اللہ کو جیسا پہچاننا چاہیے تھا ویسا نہیں پہچانا جب تو (ضد سے)کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا (اے پیغمبرؐ!)کہہ دے جس کتاب کو موسیٰ لے کر آئے تھے اس میں لوگوں کے لیے روشنی اورہدایت تھی اس کو کس نے اُتارا تھا تم نے اسکے کئی ورق (الگ الگ)بنا رکھے ہیں جن کو تم بتلاتے ہو اور بہت سے چھپا رکھتے ہو اور تم کو (قرآن کی طفیل میں )وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ (اے پیغمبرؐ!)کہہ دو اللہ ہی نے (وہ کتاب اُتاری تھی)پھر اُن کو اپنی غلط باتوں میں کھیلنے دے۔ ‘‘ حضرت ابن عباس اور بعض دیگر تابعین نے کہا ہے کہ اس سے قریش مراد ہیں جو کہ رسالت کے منکر تھے۔ (ابن کثیر)بعض نے گزشتہ سلسلۂ کلام اور بعد کی جوابی تقریر کو قرینہ بنا کر لکھا ہے کہ یہ علمائے یہود کا دعویٰ تھا جسے کفار قریش دلیل بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا کرتے تھے، یہودی پڑھے لکھے تھے اور ان کے پاس گزشتہ انبیا کا علم بھی تھا ا س لیے کفارِ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے اکثر ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ، معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے ہی موقع پر انہوں نے یہ بات کفارِ قریش سے بطورِجواب کہی اور ضد اور ہٹ دھرمی میں اندھے ہو کر یہ بھی بھول گئے کہ اس کی زد خود ان پر پڑتی ہے اس لیے اگلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا براہِ راست ان سے خطاب کر کے جواب دیا ہے۔ (ملخص المنار)مگر ابن جریر نے پہلے قول کو پسند کیا ہے اور حافظ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے و الاوّل اصح باقی رہا قل من انزل الکتاب الذی… الخ تو یہ بھی قریش پر الزام ہے کیونکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کے قائل تھے اور پھر ضمناً یہود سے خطاب ہے۔(ابن کثیر)