کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 182
بچوں، عورتوں، بچیوں یا طلباء کے مابین مقابلہ کروانا چاہتا ہو یا وہ کتاب ہذا سے استفادہ کرکے کہیں گفتگو کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنے مخاطبین کے علمی و عقلی معیار کو سامنے رکھ کر یہ مقابلہ کروائے یا ان سے گفتگو کرے تاکہ اس سے مطلوب فائدہ حاصل ہوسکے۔ مخاطبین اس ضمن میں کوئی دقت یا بوجھ محسوس نہ کریں یا ایسا نہ ہو کہ ان کو اس مقابلہ و محاضرہ سے فائدہ بہت کم پہنچے۔ اسی طرح بعض جوابات نہایت مختصر ہیں کہ جو تفصیل اور وضاحت چاہتے ہیں اس لیے تربیت کرنے والے حضرات اور اساتذہ کرام اس ضمن میں بھی خبردار رہیں(اور دیگر کتب کے مطالعہ سے جوابات کی تفصیل یاد کرکے تیاری کریں)اللہ ہم سب کو اس کی توفیق و صلاحیت عطا فرمائے۔ ۴:… آخر میں گزارش ہے کہ میں نے اس کتاب ’’ جامع سیرت ‘‘ میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ:اس میں ایسے سوالات کو جمع کروں جو ایک طرف معلوماتی بھی ہوں اور دوسری طرف ان کے جوابات توجہ اور تربیت کے حامل ہوں(یعنی ان جوابات سے ہمیں اپنی غلطیوں پر تنبیہ ہو اور ان سے نصیحت و تربیت کا سبق بھی ملے۔)تو گویا یہ جوابات قاریٔ کتاب اور ایک محاضر و استاد کو اس طرف دعوت دے رہے ہیں کہ وہ خود بھی اُس سیّد الانبیاء والرسل و امام المتقین والمؤمنین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقتداء کریں کہ جن کو اللہ عزوجل نے تمام اہل اسلام و ایمان کے لیے مکمل نمونہ بنایا ہے، اُن کے ملک اور وطن چاہے ایک دوسرے سے کتنے ہی دُور کیوں نہ ہوں اور زمانہ کوئی سا بھی ہو۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o﴾(الاحزاب:۲۱) ’’(مسلمانو!)تم اللہ تعالیٰ کے رسول کی پیروی کرنا تھی جو ان لوگوں کے لیے اچھی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اور پچھلے دن(قیامت)سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘ اللہ عزوجل سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمارے اس عمل کو نفع بخش بنائے اور اسے اپنی ذاتِ اقدس کے لیے خالص کرلے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔ عبداللہ بن سلیمان المرزوق / القصیم ۲۴/ ۲/ ۱۴۲۷ھ