کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 172
فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کر اور اس سے بخشش طلب کر۔ بلاشبہ وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والاہے۔‘‘ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نے توباقاعدہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لے کر بنو اسرائیل کو خوشخبری سنائی کہ میرے بعد ان کی بعثت ہوگی۔(ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا)چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل اس دور کے صحیح العقیدہ دین عیسوی پر چلنے والے علماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام تک سے واقف تھے۔ (۲) متی کی انجیل(باب:۳، فقرہ نمبر:۱ تا ۳، ص:۶)درج ہے: ’’ ان دنوں میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور یہودیہ کے بیابان میں یہ منادی کرنے لگا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔ یہ وہی ہے جس کا ذکر یسعیاہ نبی کی معرفت یوں ہوا کہ: بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرواس کے راستے سیدھے بناؤ۔‘‘ حضرت کعب اخبار سے منقول ہے کہ تورات میں آپ کی صفات اس طرح مذکور ہیں: (یاد رہے کہ تورات سے مراد مخصوص تورات نہیں، بلکہ عام تورات مراد ہے۔) ’’ احمد میرے مخصوص اور برگزیدہ بندے ہیں، وہ سخت کلام اور دشنام طرز نہیں ہیں، اور نہ سخت دل اور بے رحم، نہ بازاروں میں شوروشغب کرنے والے، نہ بدی کا بدلہ بدی سے دینے والے بلکہ عفو ودرگزر سے کام لینے والے ہیں۔ اس حبیب کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ہے۔ اور مقام ہجرت(طابا)مدینہ منورہ اور دارالسلطنت شام ہے۔ ان کی امت بہت زیادہ حمدوثنا کرنے والی ہوگی۔ ہر بلندی پر چڑھتے وقت وہ نعرۂ تکبیر بلند کریں گے، اور ہر نشیب میں اترتے وقت تسبیح وتحمید بجالائیں گے۔ اپنے اطراف یعنی ہاتھ اور پاؤں منہ اور سر پر وضو کرنے والے ہوں گے۔ ان کے تہہ بند ان کی نصف پنڈلیوں تک ہوں گے۔