کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 161
آخرت میں ہوگا وہ نقصان(اُٹھانے والوں سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیوں راہ پر لائے گا جو کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد اور بتاچکے کہ یہ رسول(حضرت محمدؐ)سچے(پیغمبر)ہیں اور کھلی کھلی نشانیاں ان کو پہنچ گئیں اور اللہ بے انصاف لوگوں کو راہ پر نہیں لاتا۔ ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی پھٹکار ہے۔ وہ ہمیشہ اس میں(یعنی اس پھٹکار میں یا دوزخ میں کیونکہ پھٹکار والوں کا ٹھکانا وہی ہے)رہیں گے نہ ان کا عذاب ہلکا ہوگا نہ ان کو مہلت ملے گی۔ ‘‘[1]
س:۱۷۸… کیا خاتم الانبیاء والرسل نبی مکرم محمد بن عبداللہ القرشی الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت دُنیا کی اقوام میں سے کسی خاص(عرب)قوم کی طرف تھی یا بلا تفریق و تقسیم دنیا کے تمام(عربی و عجمی)لوگوں کی طرف تھی؟ دلیل سے بات کریں ؟
ج:۱۷۸… درج ذیل دلائل سے بالکل صاف اور واضح معلوم ہوتا ہے کہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت دنیا جہان کے تمام لوگوں اور قیامت تک کی تمام اقوام کے لیے ہے نہ کہ کسی خاص ملت و قوم کے لیے۔
۱۔ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o﴾(الانبیاء:۱۰۷)
’’ اور(اے پیغمبرؐ)ہم نے تو تجھ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ ‘‘
۲۔ دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ
[1] یعنی جو لوگ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا نبی ہونے کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود محض کبر و حسد اور حب جاہ و مال کی بنا پر کفر کی روش پر قائم رہے یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر مرتد ہوگئے وہ سراسر ظالم و بدبخت ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہِ ہدایت دکھانا اللہ تعالیٰ کا قانون نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد کافر سے زیادہ مجرم ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)