کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 150
یزید المطلبی(امام شافعی رحمہ اللہ کے جد اعلی)،(۹)عبداللہ بن عامر بن کریز اور(۱۰)کابس بن ربیعہ بن عدی رضی اللہ عنہم ورحمہم اللہ جمیعاً۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درج ذیل دو اشعار میں ان سب حضرات کو یوں شمار کیا ہے:
شِبْہُ النَّبِيِّ لِعَشْرٍ:سَائِبٍ وَأَبِيْ سُفْیَانَ وَالْحَسَنَیْنِ الطَّاھِرَیْنِ ھُمَا
وَجَعْفَرٍ وَابْنِہٖ، ثُمَّ ابْنِ عَامِرِھِمْ وَمُسْلِمٍ کَابِسٍ یَتْلُوْہُ مَعَ قُثَمَا
دس میں ہے مشابہت نبی کی، سائب بن یزید، ابوسفیان بن الحارث، حسن و حسین طاہرین میں اور جعفر بن ابوطالب اور اُن کے بیٹے عبداللہ میں اور پھر اُنھیں میں سے عبداللہ بن عامر، مسلم بن عقیل، کابس بن ربیعہ اور قثم بن عباس رضی اللہ عنہم میں۔ ‘‘
س:۱۶۸… جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے اُٹھنے کا ارادہ فرماتے تو کیا پڑھتے تھے؟ اس ذکر کافائدہ کیا ہے؟
ج:۱۶۸… نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس سے اُٹھتے تو آپ یوں پڑھتے تھے:
((سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ۔))[1]
’’ اے اللہ! تو(ہر نقص اور عیب سے)پاک ہے اور اپنی حمد و ثنائے جمیل کے ساتھ(تو تعریف کیا گیا ہے)میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبودِ برحق نہیں ہے۔ میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ ‘‘
اس دُعا و ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ جو آدمی مجلس کے اختتام پر یہ کلمات ادا کرلیتا ہے اس کی تمام لغویات و اخطاء جو اُس سے مجلس میں ہوئی ہوتی ہیں معاف کردی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص کسی مجلس ذکر و تلاوت یا مجلس عبادت سے اُٹھتے وقت اسے پڑھتا ہے تو وہ اس کے لیے نیکیوں کی قبولیت کی مہر بن جاتی ہے جو اس کی حسنات پر لگائی جاتی ہے۔
[1] جامع الترمذي/ حدیث: ۳۴۳۳۔ وقال الترمذي: ھذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔