کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 148
اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلا کر پیار سے سمجھا بھی دیا کہ:’’ اے اللہ کے بندے! یہ مسجدیں پیشاب پائخانہ کرنے اور گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بنائی جاتیں، بلکہ یہ تو اللہ کے ذکر نماز، قرآن کی تلاوت اور اُس کی عبادت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔ ‘‘[1] (۴) سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ:’’ میں کسی راستے پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جارہا تھا اور آپ علاقہ یمن کے نجران شہر کی بنی ہوئی ایک سخت حاشیے والی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ ایک گنوار نے(جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا مطالبہ کرتا تھا۔)آپ کو چادر سمیت زور سے پکڑ کر کھینچا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کندھے کو دیکھا کہ اس چادر کے حاشیے نے آپ کے مبارک جسم پر نشان ڈال دیا ہے۔ یعنی اتنا زور سے اُس نے کھینچا تھا۔ اور پھر وہ کہنے لگے:اے محمد! اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے، اُس میں سے مجھے کچھ دلواؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور ہنس دیے،(یعنی اس کی بے ادبی اور جہالت پر)اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کچھ عطا کرنے کے لیے حکم فرمایا۔ ‘‘ [2] (۵) صحیح بخاری ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ ہم لوگ ذات الرقاع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔(دستور یہ تھا کہ)جب ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔(ایک بار)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالا اور لوگ درخت کا سایہ حاصل کرنے کے لیے ادھر اُدھر کانٹے دار درختوں کے درمیان بکھرگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے اُترے اور اسی درخت سے تلوار لٹکا کر سوگئے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بس ذرا سی نیند آئی تھی کہ اتنے میں ایک مشرک نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سونت لی اور بولا:’’ تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ! اس نے کہا:’’ تب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ ‘‘ آپؐ
[1] صحیح مسلم/ حدیث: ۶۶۱۔ [2] صحیح البخاري/ کتاب اللباس/ حدیث: ۵۸۰۹۔ وصحیح مسلم/ حدیث: ۲۴۲۹۔