کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 145
کے لیے رُکے رہتے کہ وہ خود ہی واپس ہوتا۔ کوئی کسی ضرورت کا سوال کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عطا کیے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضیلت تھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس حلم و حیاء اور صبر و امانت کی مجلس تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے تھے… یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا… لوگ تقویٰ کی بدولت باہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے۔ بڑے کا احترام کرتے تھے، چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجت مند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی، سہل خو اور نرم پہلو تھے، جفا جو اور سخت خو نہ تھے۔ نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے۔ جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا:(۱)ریاء سے،(۲)کسی چیز کی کثرت سے اور(۳)لایعنی بات سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا:یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم(۱)کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے،(۲)کسی کو عار نہیں دلاتے تھے(۳)اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی اُمید ہوتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکائے ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا سب اس کے لیے خاموش رہتے، یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کرلیتا۔ ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا۔ جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب کرتے۔ اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے:’’ جب تم لوگ حاجت مند کو