کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 144
تھے کسی چیز کی مذمت نہیں فرماتے تھے،کھا نے کی نہ برائی کرتے تھے، نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جاسکتا تھا۔ البتہ کشادہ دل تھے؛ اپنے نفس کے لیے نہ غضب ناک ہوتے نہ انتقام لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے۔ جب غضبناک ہوتے تو رُخ پھیرلیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے۔ آپؐ کی بیشتر ہنسی تبسم کی صورت میں تھی۔ مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔ لا یعنی بات سے زبان روکے رکھتے۔ ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے۔ ہر قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے۔ لوگوں(کے شر)سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے تھے، لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ جبینی ختم نہ فرماتے تھے۔ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین۔ معتدل تھے، افراط و تفریط سے دُور تھے۔ غافل نہ ہوتے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہوجائیں۔ ہر حالت کے لیے مستعد رہتے تھے۔ حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف جاتے تھے۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے، وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسار و مددگار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ضرور فرماتے، جگہیں متعین نہ فرماتے… یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے… جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے۔ سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتی کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ باعزت ہے۔ کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس