کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 143
سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا۔ بدخلقی سے سب سے زیادہ دور و نفور تھے۔ نہ عادتاً فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے۔ نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ معافی اور درگذر سے کام لیتے تھے۔ کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفّع اختیار فرماتے تھے۔ اپنے خادم کا کام خود ہی کردیتے تھے۔ کبھی اپنے خادم کو اُف نہیں کہا۔ نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر عتاب فرمایا۔ مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے۔ کسی فقیر کو اس کے فقیر کی وجہ سے حقیرنہیں سمجھتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا۔ ایک نے کہا:ذبح کرنا، میرے ذمہ۔ دوسرے نے کہا! کھال اتارنا، میرے ذمہ۔ تیسرے نے کہا:پکانا، میرے ذمہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ۔ صحابہ نے عرض کیا:ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم پر امتیاز حاصل کروں، کیوں کہ اللہ اپنے بندے کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے رفقا میں ممتاز سمجھے۔ ‘‘ اس کے بعد آپؐ نے اُٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں۔ ‘‘[1] آئیے ذرا ہند رضی اللہ عنہا بن ابی ہالہ کی زبانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف سنیں۔ ہند رضی اللہ عنہا اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیہم غموں سے دوچار تھے۔ ہمیشہ غور و فکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی۔ بلا ضرورت نہ بولتے تھے۔ دیر تک خاموش رہتے تھے۔ از اوّل تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے۔ جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے، جن میں نہ فضول گوئی ہوتی تھی نہ کوتاہی۔ نرم خو تھے، جفا جو اور حقیر نہ تھے۔ نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے
[1] خلاصۃ السیر، ص: ۲۲۔