کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 142
جاتا تھا اور دورِ جالیت میں آپ کے پاس فیصلے کے لیے مقدمات لائے جاتے تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:’’ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں۔ ‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ o﴾ (الانعام:۳۳) ’’ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ ‘‘ [1] ہرقل نے ابوسفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس(نبی صلی اللہ علیہ وسلم)نے جو بات کہی ہے، اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ اُن پر جھوٹ کاالزام لگاتے تھے؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا کہ؛ ’’ نہیں ! ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے۔ جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقرأ کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے، جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے گھر کے کام کاج کرتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے(کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو)اپنی بکری خود دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔ [2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلح رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ
[1] مشکوٰۃ: ۲/ ۵۲۱۔ [2] مشکوٰۃ: ۲/ ۵۲۰۔