کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 141
ہوتا۔[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا، لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ(کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے)چکے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرمارہے تھے:’’ ڈرو نہیں، ڈرو نہیں(کوئی خطرہ نہیں)۔ ‘‘ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیادار اور پست نگاہ تھے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا۔ [3] اپنی نظریں کسی کے چہرے پر گاڑتے نہ تھے۔ نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی۔ عموماً نیچی نگاہ سے تاکتے۔ حیا اور کرم نفس کا عالم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رُودر رُو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لے کر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ فرزدق کے اس شعر کے سب سے زیادہ صحیح مصدق آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے:
یغضی حیاء ویغضی من مہابتہ فلا یکلم الاحین یبتسم
’’ آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور آپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں، چنانچہ آپ سے اُسی وقت گفتگو کی جاتی ہے، جب آپ تبسم فرمارہے ہوں۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاکدامن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے۔ اس کا اعتراف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کہا
[1] شفاء قاضی عیاض:۱/۸۹۔ صحاح و سنن میں بھی اس مضمون کی روایت موجود ہے۔
[2] صحیح مسلم: ۲/۲۵۲۔ صحیح بخاری:۱/۴۰۷
[3] صحیح بخاري: ۱/ ۵۰۴۔