کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 14
خلاصۂ کلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ساری دنیا تاریک ہوچکی تھی۔ ربع مسکون پر جہالت کی اندھیری رات یوں چھائی ہوئی تھی دنیا کے کسی بھی حصے،خطے اور ملک میں روشنی کی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے ابتدائی زمانے کے علاوہ دنیا پر اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ تہذیب وتمدن،للھیت واخلاق،علم وحکمت اور معرفت الٰہی سب کے سب اس طرح برباد ہوئے ہوں کہ پوری دنیاتیرہ وتار ہوکر رہ گئی ہو۔اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی کیفیت یوں بیان فرمائی ہے:
﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی الْنَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمْلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo﴾(الروم:۴۱)
’’لوگ جو برے کام کررہے ہیں۔(شرک وخرافات اور کفر وگناہ والے)ان کی وجہ سے خشکی اور تری(سمندروں کے ٹاپووں میں بھی)فساد پھیل گیا ہے۔(اب اللہ تعالیٰ اپنا رسول جو بھیجنا چاہتا ہے تو)اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کے کچھ کاموں کی سزا ان کو دنیا میں بھی چکھائے تاکہ وہ ان برے کاموں سے باز آجائیں۔‘‘
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا میں بسنے والے انسان دینِ اسلام،عقیدۂ توحید،عدل وانصاف اورامن و ایمان کے تمام تقاضے پورے کررہے ہوں اور اللہ ان میں کوئی نبی مبعوث کردے۔قرآن حکیم اور احادیثِ مبارکہ کے بے شمار دلائل اس بات کی تائید میں موجود ہیں کہ جب یہ سب کچھ انسانوں میں نہیں رہتا تھا تب اللہ تعالیٰ انہیں سیدھا کرنے کے لیے ان میں اپنے نبی اور رسول بھیجا کرتا تھا۔جیسے کہ اللہ ذوالجلال نے یہ بات اصولاً فرمادی:
﴿وَمَآاَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآئِ وَالْضَّرَّآئِ لَعَلَھُمْ یَضَّرَّعُوْنَo﴾(الاعراف:۹۴)
’’اور جب ہم نے کسی بستی میں کوئی پیغمبر بھیجا(اور بستی والوں نے اس کی تکذیب کی)تو وہاں کے رہنے والوں کیہم نے محتاجی(قحط سالی وغیرہ)اور بیماری(طاعون