کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 137
کوئی چیز نہیں دیکھی۔ لگتا تھا، سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں رواں دواں ہے۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا۔ لگتا تھا زمین آپ کے لیے لپیٹی جارہی ہے۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے فکر۔ [1]
حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اُٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ [2]
ایک بار آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اُٹھیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوکبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:
واذا نظرت الی أسرۃ وجہہ برقت کبرق العارض المتہلل [3]
’’ جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔ ‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے:
أمین مصطفی بالخیر یدعو کضوء البدر زایلہ الظلام [4]
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین ہیں، چنیدہ و برگزیدہ ہیں، خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی ہیں جس سے تاریخی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ زہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:
لو کنت من شیئٍ سوی البشر کنت المضیَٔ لِلَیلۃِ البدر
’’ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے۔ ‘‘
پھر فرماتے کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے۔‘‘ [5]
[1] جامع ترمذی مع شرح تحفۃ الاحوذی: ۴/ ۳۰۶۔ مشکوٰۃ: ۲/ ۵۱۸۔
[2] صحیح بخاری: ۱/ ۵۰۲۔
[3] رحمۃ للعالمین: ۲/ ۱۷۲۔
[4] خلاصۃ السیر، ص: ۲۰۔
[5] ایضاً، خلاصۃ السیر، ص: ۲۰۔