کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 131
((لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ۔ إِنَّمَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا:عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہٗ۔))[1]
’’ میری تعریف میں اتنا مبالغہ نہ کرو(مجھے میرے مقام سے بلند نہ کردو)جیسے نصاریٰ نے(اپنے پیغمبر)عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بہت زیادہ چڑھادیا(اور ان کی تعریف میں مبالغہ کرکے اُنھیں اللہ کا بیٹا بنادیا۔)میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور کچھ نہیں۔ یوں کہو:اللہ کے بندے! اللہ کے رسول! ‘‘ [2]
(۲) سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ۔ وَاللّٰہِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزَلَتِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَنِيَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔))[3]
’’ میں محمد بن عبداللہ(بن عبدالمطلب القرشی الہاشمی)ہوں(صلی اللہ علیہ وسلم)جو اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہے۔ ربّ ذوالجلال کی قسم! میں اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا کہ تم میری اُس قدر و منزلت سے کہیں زیادہ مجھے بڑھادو اور بلند کردو کہ جس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے رکھا ہے۔ ‘‘
(۳) نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے منع کیا کرتے تھے کہ لوگ آپ کے استقبال کے لیے کھڑے ہوں یا یہ کہ آپ تشریف فرما ہوں اور کوئی شخص کھڑا رہے۔
(۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر نہیں کھاتے تھے۔(یہ بھی تکبر کی علامت ہے۔)
(۵) آپ مسلمانوں میں سے کمزور، مسکین اور غریب قسم کے لوگوں کے پاس تشریف لاتے،
[1] صحیح البخاري/ کتاب احادیث الانبیاء/ حدیث: ۳۴۴۵۔
[2] اسی بات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’ عبد… بندہ ‘‘ کا کلمہ استعمال کرکے اللہ نے اپنے نبی کی شان کئی مقامات پر قرآن میں اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ تفصیل کے لیے: (۱)سورۃ الاسراء کی آیت نمبر: ۱، سورۃ الکہف کی آیت نمبر: ۱، سورۃ الفرقان کی آیت نمبر: ۱، سورۃ النجم کی آیت نمبر: ۱۰، سورۃ الجن کی آیت نمبر: ۱۹، سورۃ حم السجدہ (فصلت)کی آیت نمبر: ۶ اور سورۃ الکہف کی آیت نمبر: ۱۱۰ دیکھ لیں۔
[3] مسند الامام أحمد: ۳/ ۲۴۹، ۳/۱۵۴، ۴/۲۵۔ اسنادہ صحیحٌ۔