کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 13
تھی۔ہر ملک میں نوعِ انسانی سے لے کر نوعِ جمادات تک کی پر ستش سرمایۂ نازش بنی ہوئی تھی۔کہیں انسان کو ’’اوتار‘‘(خدا)کہا جا رہا تھا اور کہیں خدا کا بیٹا۔ یہ صرف قیل و قال کی حد تک نہ تھا بلکہ ان باطل نظریات کی بنیاد پر صدہا صد سالوں سے ایک دوسرے کا خون بھی بہایا جا رہاتھا۔کوئی مادہ پرست تھا تو کوئی دوسرا خود اپنی آتما(روح)کو ہی خدا سمجھ رہا تھا۔سورج،چاند اور تاروں کی پرستش کے ساتھ ساتھ حجر و شجر اور نار کی پوجا تھی۔پانی،ہوا اور مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی تھی۔غرضیکہ کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق اور نہیں تھی تو صرف ذاتِ الٰہ قابل عبادت نہ تھی۔نہ اس کی احدیّت کا تصورِ خالص تھا اور نہ صمدیّت کا، اگر اسے مانا بھی جاتا تھا تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعے۔یہ نظریہ عام تھا کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات و موجودات ہے تو مادہ روح اور ترکیب،سب ہی باتوں میں دوسروں کے واسطے اوراحتجاج کاپابند ہے۔ وہ اگر مالکِ موجودات ہے بھی تو انسان، حیوان درخت اور پتھر کے بل بوتے پر۔‘‘غرض ساری دنیا میں اصل کا رفرمائی مظاہر کی تھی اور ’’ذاتِ حق ‘‘ صرف نام کے لیے تھی۔حقیقت سے چشم پوشی تھی۔مجاز کے ساتھ ذوقِ عشق اور ذات حق سے بُعد تھا۔مظاہر سے قربت سرمایہِ سعادت اور حق سے بیگانگی تھی۔ ہر طرف ﴿مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾…’’ہم ان کی پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں۔‘‘ کا مظاہر نظر آتا تھا۔ پورے کرۂ ارض پر چند ایک افراد تھے جو اللہ کو اس کی ذات و صفات میں ایک ماننے والے تھے۔روئے زمین پر کروڑوں کی انسانی آبادی میں ان کا شمار انگلیوں پر کیا جا سکتا تھا۔وہ بھی کہیں ایک مقام پر اکٹھے نہ تھے۔دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔‘‘