کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 117
حکومت قطعاًقائم نہ رہ سکی۔ اس کے بعد اسلامی سپاہ نے(سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں ہی)فتح کے جھنڈے لہراتے ہوئے پے در پے معارک کے ذریعے اس قوت اور کسروی حکومت کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا اور پورے ملک میں دین حنیف کا قانون نافذ کردیا۔ کسریٰ پرویز کے ساسانی خاندان کا دُنیا سے نام و نشان مٹ گیا۔ س:۱۳۲… جو خط نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف لکھا تھا، اس خط کے ساتھ رومی بادشاہ نے کیا سلوک کیا تھا اور پھر اس کا نتیجہ کیا نکا؟ ج:۱۳۲… ماہِ محرم سنہ ۷ ہجری میں دُنیا کے دیگر مختلف بادشاہوں اور امراء کے نام جو دعوتی خطوط روانہ فرمائے تھے، اُن میں سے ایک خط، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ قیصر روم کی طرف بھی بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم فرمایا کہ وہ یہ خط سربراہ بصریٰ(ملک شام کا ایک شہر اور علاقہ)کے حوالے کردیں وہ خود اسے قیصر روم تک پہنچادے گا۔ چنانچہ قیصر روم ہرقل کے پاس جب یہ خط پہنچا تو اُس نے اس خط کو بوسا دیا اور اسے اپنے سر پر رکھا۔ پھر اُس نے اپنے شہر میں موجود بعض تاجروں کو بلوایا کہ جن میں ابوسفیان صخر بن حرب بھی تھے۔ ھرقل شاہِ روم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جناب ابوسفیان سے چند سوالات کیے۔ اور پھر ان سوالات کے جوابات سننے کے بعد اُس نے کہا:ابوسفیان! جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اگر یہ سب باتیں درست اور حق ہیں تو اُس پیغمبر(محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کا دین(اور اُس کی اسلامی سپاہ)میرے ان دونوں قدموں کی جگہ(پوری سلطنت روم)کی بھی مالک بن جائیں گے۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اُٹھاتا۔ اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا۔ پھر اس خط کو لے کر آنے والے جناب دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا:میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ تمھیں خط دے کر بھیجنے والے صاحب نبی مرسل ہیں۔ اور یہ وہی پیغمبر صاحب ہیں کہ جن کے متعلق ہم اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے اور ہم اُن کا انتظار کر رہے