کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 11
اگر یہ لوگ جس وقت انہوں نے قصور لیا تھا تیرے پاس آن کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور پیغمبر بھی(یعنی تو بھی)ان کے لیے معافی چاہتا تو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کو بڑا معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘ اللہ کا پورا پورا پیغام لوگوں تک پہنچانا۔ اپنی ملت کو اللہ کی پکڑ سے ڈرانا اور اہل ایمان کو اللہ کی رضا اور اس کی جنت کی خوش خبری دینا۔ جیسے کہ فرمایا: ﴿وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o﴾(الانعام:۴۸) ’’اور ہم پیغمبروں کو اسی لیے بھیجتے ہیں اور کچھ نہیں کہ(نیکوں کو)خوشخبری سنائیں اور(منکروں کو)ڈرائیں، پھر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے(پیغمبروں کا کہا مانا)ان کو نہ ڈر ہو گا نہ غم۔‘‘ ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ لغزشوں پر نادم ہو کر لو گ اپنے رب سے توبہ و استغفار کریں(جیسا کہ سورۃ الاعراف کی آیت ۹۴میں بیان ہوا ہے)اور اس لیے بھی اللہ اپنے نبی بھیجتا تھا تاکہ سرکشوں کو ان کی بد اعمالیوں پر دنیا میں بھی سزا مل سکے۔ جیسے کہ پیچھے بیان ہو چکا ہے۔ ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ اس دور کے مجرموں سے انتقام لیا جائے اور اہل ایمان کی مدد کی جائے۔ جیسے کہ فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (الروم:۴۷) ’’اور(اے پیغمبرؐ!)ہم تجھ سے پہلے کئی پیغمبر اُن کی قوم کی طرف بھیج چکے ہیں وہ نشانیاں(معجزے)لے کر اُن کے پاس آئے(مگر انہوں نے نہ مانا)آخر گناہگاروں(نافرمانوں)سے ہم نے بدلہ لے لیا اور ایمان والوں کی مدد ہم کو ضروری تھی۔‘‘