کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 108
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی، مگر سب کے سب شہید ہوگئے۔ صرف حضرت کعب بن زید بن نجار رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ انھیں شہدائے کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھالایا گیا اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔ ان کے علاوہ مزید دو صحابہ حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری اور حضرت منذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرارہے تھے۔ انھوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈالتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے۔ پھر حضرت منذر تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہما بن اُمیہ ضمری کو قید کرلیا گیا، لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ مضر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹواکر اپنی ماں کی طرف سے… جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی… آزاد کردیا۔
س:۱۲۱… مکہ کے کفار و مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرتے ہوئے نہایت کامران اس شہر میں داخل ہوئے تھے تو اُس وقت آپ نے ان لوگوں سے کیا کہا تھا؟ یہ سلوک کس بات پر دلالت کرتا ہے؟
ج:۱۲۱… جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرلیا اور آپ اس میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو مسجد حرام میں جمع کیا اور اُن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔ سنو! بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارا اعزاز، یا کمال، یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ یاد رکھو! قتل خطا شبہ عمد میں… جو کوڑے اور ڈنڈے سے ہو… مغلظ دیت ہے، یعنی سو اونٹ جن میں سے چالیس اونٹنیوں کے شکم میں ان کے بچے ہوں۔
اے قریش کے لوگو! اللہ تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۔ سارے لوگ آدم علیہ السلام سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ ‘‘ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: