کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 107
اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوبراء عامر بن مالک، جو ملاعب الاسنہ(نیزوں سے کھیلنے والا)کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن دوری بھی اختیار نہیں کی۔ اس نے کہا:’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہل نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے اُمید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہل نجد سے خطرہ ہے۔ ‘‘ ابو براء نے کہا:’’ وہ میری پناہ میں ہوں گے۔ ‘‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اسحق کے بقول چالیس اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کو اس کے ہمراہ بھیج دیا… ستر ہی کی روایت درست ہے، اور منذر بن عمرو کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے اور ’’ معتق للموت ‘‘(موت کے لیے آزاد کردہ)کے لقب سے مشہور تھے، ان کا امیر بنادیا۔ یہ لوگ فضلاء، قراء اور سادات و اخیارِ صحابہ تھے۔ دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صفہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے۔ یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بن سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے۔ وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمّ سلیم کے بھائی حرام رضی اللہ عنہ بن ملحان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دے کر دشمن خدا عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا، لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کردیا، جس نے حضرت حرام رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آرپار ہوگیا۔ خون دیکھ کر حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ اللہ اکبر! ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا! ‘‘
اس کے بعد فوراً ہی اس دشمن خدا عامر نے باقی صحابہ رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی۔ مگر انھوں نے ابوبراء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔ ادھر سے مایوس ہو کر اس شخص نے بنوسلیم کو آواز دی۔ بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا۔ جواباً