کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 101
تیر اندازی عربوں میں مشہور تھی۔)چنانچہ ہم نے جب پہلے ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ اُٹھے۔ جس سے ہوا یہ کہ مسلمان مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ ان کو موقع ملا اور اُنھوں نے سامنے سے تیر برسانا شروع کردیے۔(اور پھر تیروں کی تاب نہ لاکر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے۔)مگر نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنی سفید خچر پر سوار تھے اور(آپ کے تایا کے بیٹے)ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ اس دوران(اپنی شجاعت اور مسلمانوں کو ہمت دلانے کے پیش نظر)نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ شعر پڑھ رہے تھے:
أَتَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلبْ
’’ ہوں میں پیغمبر بلاشک و خطر……… اور ہوں میں عبدالمطلب کا پسر۔ ‘‘
(یعنی میں اللہ کا سچا نبی ہوں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو کچھ فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے، وہ برحق ہے۔ اس لیے میں بھاگ جاؤں یہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کلام صرف اک موزوں کلام ہے، مگر اسے شعر نہیں کہیں گے۔)[1]
س:۱۱۱… غزوۂ بدر الکبریٰ میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی اور مشرکوں کی تعداد کتنی تھی؟
ج:۱۱۱… جنگ بدر میں اہل ایمان، مجاہدین کی تعداد تین سو تیرہ(۳۱۳)تھی یا ۳۱۴۔ جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد اس جنگ میں ۹ سو سے ایک ہزار کے درمیان تھی۔
س:۱۱۲… جنگ بدر میں مشرکوں کے کتنے آدمی قیدی بنے تھے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن میں سے کسی قیدی کو کب رہا کرتے تھے؟ اس سے کس بات کا استدلال ہوتا ہے؟
ج:۱۱۲… غزوۂ بدر الکبریٰ میں مشرکین مکہ کے ستر آدمی قید ہوئے تھے۔ اور ان میں سے جو آدمی فدیہ ادا کردیتا(جو طے کرلیا گیا تھا)یا مسلمانوں کے دس بچوں کو مکمل پڑھا لکھا دیتا تو اُسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزاد کردیتے تھے۔ اس سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں کے
[1] صحیح البخاري/ حدیث: ۲۸۶۴۔